مہانگری
مہانگری کے بارے میں کئی طرح کی روایتیں مشہور تھیں۔
عورتیں اسے چڑیلوں کی بستی کہتی تھیں اور مرد آدم خوروں کی، وہاں کی کہانیوں سے بچے ڈرائے اور سلائے جاتے تھے، وہاں کا تصور لرزہ طاری کردیتا تھا اور کوئی وہاں جانے کا تصور کرتا تو بیویاں اس کے پیروں میں بیڑیاں بن جاتیں۔
’’میں بیوہ ہونا نہیں چاہتی، میں ببلو کو یتیم دیکھنا نہیں چاہتی، وہ موت کی بستی ہے، وہاں سے کوئی واپس نہیں لوٹا ہے، وہاں آدم خور چڑیلیں رہتی ہیں وہاں آگ ہے، دھواں ہے، اسی لئے تو باہر سے کچھ نظر نہیں آتا اور تجسس خوش آمدید کا بورڈ لگائے کانوں میں سرگوشیاں کرتا رہتا ہے۔‘‘
میں نے اپنی بستی کا جائزہ لیا، سب کے ماتھوں پرنمبر پڑے ہوئے ہیں اورا نہیں نمبروں سے تعظیم کے معیار کا تعین ہوتا ہے۔ اگر پیشانیوں سے نمبر ہٹا دیے جائیں تو کوئی کسی کے گھر میں داخل ہوسکتا ہے، مہمانوں کے ساتھ یہ حادثہ اتنا پرانا ہوچکا ہے کہ کوئی اس کا برا نہیں مانتا، سارے مکانات ایک طرح کے، چہرے اور کپڑے ایک طرح کے، مسائل یکساں اوربہت دور نشیب میں مہانگری جس کے سر پر دھواں سوالیہ نشان کی طرح کھڑا تھا۔ ٹیڑھے میڑھے راستے اور ایکسیلٹر پر پاؤں کا دباؤ بڑھ جاتا ہے، اور نظریں اس طرح ونڈاسکرین سے چپک جاتی ہیں جیسے ادھر ادھر ہونے سے مہانگری کا آسیب ان کے ہاتھوں سے چمٹ جائے گا۔
جب میں نے اپنا خیال دوستوں پر ظاہر کیا تو ان کے چہرے زرد ہوگئے۔
’’سنو کہ ہمیں تم سے اتنی ہی محبت ہے جتنی اپنے جسم کے کسی حصے سے، اگر کوئی ہم سے یہ کہے کہ تم اپنے جسم کا فلاں حصہ کاٹ کر پھینک دو تو تم جانتے ہی ہو کہ ہم کیا جواب دیں گے۔‘‘
’’بھیا جی، بیوی بچے نہ ہونے کا یہ مطلب تو نہیں کہ تجربے کے لئے پہاڑ کی چوٹی سے چھلانگ لگادی جائے، ان کی بیویوں نے سمجھایا۔‘‘
میں نے ان سے بحث نہ کی کہ ان کے احساسات سے میری اندر کچھ سرسراہٹ ، کلبلاہٹ ہوئی تھی مگر وہ اتنی شدید نہیں تھی کہ کانوں میں گونجنے والی خوش آمدید کی صدا پرحاوی ہوجاتی۔ جب وہاں کوئی گیا ہی نہیں، واپس آیا ہی نہیں تو پھر وہ کہانیاں، وہ روایتیں، خوف اور پیروں کی بیڑیاں، میرا کیا ہے کہ میں بھیڑ میں تنہاآدمی اپنا کھویا ہوا چہرہ ڈھونڈنے میں مصروف ہوں، اندربہت سی بے چین لہروں کا اضطراب۔
کیا یہ سب کچھ حقیقتاً ویسا ہی ہے جیسا نظر آتا ہے، اندر ہی اندر کہانیاں ہی شیشے کی دیواریں ہیں، پلاسٹک سرجری کا کمال ہے، تو ایک دن میں نے سرحد کی خلاف ورزی کردی، اور جب خطرے کے بورڈ سے آگے بڑھا تو کسی نے بہت نرمی سے میرا ہاتھ تھام لیا۔
’’خوش آمدید نوجوان کہ ہم کئی صدیوں سے یہاں استقبال کے لئے کھڑے ہیں، لوگ آتے ہیں مگر ماسک لگائے ہوئے، ہم ان کا ہاتھ تھامتے ہیں تو لمس کا احساس نہیں ہوتا،لہریں نہیں اٹھتیں، یہ وہ نہیں ہیں جن کے ا ستقبال کا ہمیں حکم ملا ہے، انتظار کرتے کرتے اب آنکھیں تھکنے لگی تھیں، جب ہم تھکے ماندے اپنے گھروں کو لوٹتے ہیں تو سوالیہ نظریں ہمارا استقبال کرتی ہیں اور ہم یہ کہہ کر ان کو مطمئن کردیتے ہیں کہ آج نہیں تو کل کل نہیں تو پرسوں وہ ضرور آئے گااور آج تم۔۔۔‘‘
مجھے کوئی نظر نہیں آرہا تھا، کسی کے قدموں کی چاپ بھی نہیں، مگر کلائی پر کسی کے پنجوں کی دوستانہ گرفت تھی اور باتیں بارش کی نرم بوندوں کی طرح میرے اندر اتر رہی تھیں۔
راستوں پرجلتی ہوئی راکھ اور دھول، سوکھے ہوئے گڈھوں میں دھوپ سے تڑخی ہوی مٹی اور ٹیڑھی میڑھی پگڈنڈی۔۔۔ دور سڑک پر کھڑے ہوئے میری بستی کے حیران و پریشان لوگ اور ہم سفر کی ختم نہ ہونے والی باتوں کا سلسلہ۔۔۔
ہماری باتیں سن کر کچھ لوگ بھاگ گئے، کچھ بستی میں گئے، وہ ہمارے کام کے نہ تھے پھر بھی ہم نے ان سے امیدیں وابستہ کیں مگر اب تک آسمان ویسے ہی ہم سے برہم ہے، کھیتوں میں سوکھی ہوئی گھاس اور ہماری حالت۔۔۔ ہم تمہیں بستی میں پہنچاکر لوٹ جائیں گے، پھر تم سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھوگے۔۔۔
جب میں مہانگری میں داخل ہوا تو سنی ہوئی روایتیں کانوں میں شور مچا رہی تھیں ، دل میں ہیجان برپا تھا اور نظروں کے سامنے تھونسے ہوئے گھر تھے ، کھپرے اور پھوس کی چھتیں اورا وندھے کمرے تھے جن کے دروازوں پر بڑے بڑے چولہوں میں انگارے دہک رہے تھے اور ان انگاروں پر انسانی اعضا سینکے جارہے تھے، کہیں مسلم بچے، کہیں ٹکڑوں میں تنگ و تاریک گلیاں، میلے کچیلے راستے، غلیظ چہروں پر اداس آنکھیں، جسم پر جھولتے ہوئے بدبودار چیتھڑے، بڑی بڑی چھاتیوں والی برہنہ لڑکیاں جن کے سڈول جسم آگ کی روشنی میں دہک رہے تھے، شرم گاہوں سے خون رِس رہا تھا۔ چھاتیوں پر خراشیں تھیں اور کچلے ہوئے ہونٹ، ان کی نظریں بھر کے گدھ کی طرح سینکے جانے والے گوشت پر جمی ہوئی تھیں۔
اس بستی میں مجھے ایک بھی جوان مرد نظر نہیں آیا۔ جھری دار چہروں والے مرد اور عورتیں، کمسن لڑکے اور برہنہ لڑکیاں، میں نے اپنی حیرت پر کڑا پہرہ بٹھال رکھا تھا مگر لبوں پر سیکڑوں سوالات مچل رہے تھے، میں بہت کچھ پوچھنا چاہتا تھا، مگر کسی نے میری طرف توجہ نہ دی، کوئی میری طرف نہیں آیا، ان کی نظریں سینکے جانے والے گوشت پر جمی ہوئی تھیں، ہاتھ انہیں الٹنے پلٹنے میں مصروف اوربرہنہ لڑکیاں انہیں گھیرے کھڑی تھیں۔
’’بابو جی! آپ کو کچا چاہئے؟‘‘
میں نے نظریں اٹھائیں، ایک آدمی چھ سات برس کے بچے کی کلائی تھامے کھڑا تھا، لڑکا اس کی ٹانگوں سے لپٹا ہوا رو رہا تھا، ’’مجھے مت بیچو۔۔۔‘‘
’’چپ سالا،‘‘ اس آدمی نے جھڑک دیا۔ ’’ہاں بابو، جلدی بولئے پوری بستی میں اتنا تندرست کچا نہیں ملے گا اور قیمت بھی کم جیسے مفت، سیزن میں تو اس کا۔۔۔‘‘
’’مگر میں کیا کروں گا؟‘‘
’’وہی جو سب کرتے ہیں۔‘‘
’’سب کیا کرتے ہیں؟‘‘
اس نے ناگواری سے مجھے دیکھا، ’’اس کے عوض وہ جو چاہتے ہیں حاصل کرتے ہیں۔ اس نے لڑکیوں کی طرف اشارہ کیا اور تم سے ہمیں جو ملتا ہے ہم اس سے کوئلے خریدتے ہیں تاکہ ہمارے چولھے جلتے رہیں، مجھے حیرت ہے کہ تم یہ سب پوچھ رہے ہو جب کہ تم بار بار یہاں آئے ہو اور ہم نے تمہاری ضرورتیں پوری کی ہیں۔‘‘
ا س کی آواز سن کر لڑکیوں نے پلٹ کر دیکھا، ان کی آنکھوں میں چمک جاگی اور وہ ایک دوسرے کو ڈھکیلنے لگیں۔ جیسے ایک دوسرے پر سبقت لے جانا چاہتی ہوں ، پھر وہ وڑتی ہوئی میرے پاس آئیں اور مجھے گھیر لیا۔
’’بابو جی! آپ اسے لے لیجئے، اس کے عوض کئی دنوں تک سکھی رہیں گے۔‘‘
’’میں صرف دس بار پلنگ پر سوئی ہوں،‘‘ ایک لڑکی نے اپنے جسم کی طرف اشارہ کیا، صرف ہاتھ۔۔۔
’’میں سات بار اور صرف ایک جانگھ۔۔۔‘‘
’’میں تین اور دونوں جانگھیں۔۔۔‘‘
’’میں دو ، میں ایک۔۔۔ میں اب تک پلنگ پر نہیں سوئی ہوں مگر پورا کچا لوں گی۔۔۔‘‘
وہ صرف بارہ برس کی تھی۔
لڑکا رورہا تھا، اس کا باپ ڈانٹ رہا تھا، لڑکیاں اپنے ہونٹوں پر زبان پھیر رہی تھیں اور سب کی نظریں میری طرف لگی ہوئی تھیں۔
تم اسے لے کر کیا کروگی؟ میرے حلق میں آواز پھنس رہی تھی۔
میری بات سن کر لڑکیوں کی چمکتی ہوئی آنکھوں میں دھواں اٹھا پھر چنگاریاں، پھر شعلے، اور دس بار پلنگ پر سونے والی لڑکی نے میرا ہاتھ پکڑ لیا، ’’تمہیں یہ پوچھتے ہوئے شرم نہیں آتی؟ تم نے ہمیں پتھر کی مورتیں سمجھا ہے؟ ہمارے سینے میں بھی دل ہے اور دل کے تقاضے ، ارمان، خواہشیں۔۔۔ کیا تم نے اس بستی میں کسی مرد کو دیکھا ہے، چھوٹے لڑکوں کو خرید کر تم اس کا خون چوس لیتے ہو اور جوٹھے اعضا ہمارے سامنے پھینک دیتے ہو اور ہم اسے بھی حاصلِ کائنات سمجھتے ہیں، ہم تمہیں مجرم سمجھتے ہوئے بھی تمہاری خواہشوں کے آگے سر جھکاتے ہیں، کیوں کہ اپنے گھروں کے چولھوں سے مجبور ہیں ورنہ۔۔۔‘‘
میں نے انہیں بتایا کہ میں وہی ہوں جس کا تم صدیوں سے انتظار کر رہی ہو اور میں نے اپنے چہرے پر ماسک بھی نہیں لگایا ہے جس کی تصدیق ا ستقبال کرنے والے کریں گے۔
تو ان کی نظریں بدل گئیں اور وہ ایک کچے مکان کی طرف اشارہ کرتی ہوئی پھر چولھوں کے پاس چلی گئیں۔
کچے مکان کا دروازہ بیٹھ چکا تھا اور کواڑ اس طرح زمین میں گڑ گیا تھا کہ نہ اندر سے کوئی باہر آسکتا تھا نہ باہر سے اندر جاسکتا تھا۔ ایک بوڑھا کواڑ سے پیٹھ لگائے آنکھیں بند کئے کھڑا تھا، جس کے ہاتھ میں مٹی کا ایک برتن تھا، جس میں لکڑیاں جل رہی تھیں۔
میری آہٹ سن کر بوڑھے نے آنکھیں کھول دیں۔ کچھ دیر تک مجھے دیکھتا رہا پھر اس کی بجھی بجھی آنکھوں میں کرن پھوٹی اور سورج بن گئی، چہرے کی جھریاں پھیلیں اور کہانیاں بن گئیں۔
’’میرے بیٹے! میں صدیوں سے اسی جگہ کھڑا تمہارا انتظار کر رہا ہوں، اس کی آواز پرسکون تھی، اچھا ہوا تم آگئے، اب میں بہت تھک گیا ہوں، مجھے نیند آرہی ہے، تم نے مہانگری دیکھ لی ، اب اپنی امانت سنبھالو، یہ آگ بڑی مقدس ہے، تیز آندھیوں اور موسلا دھار بارش میں، میں نے اس کی حفاظت کی ہے، اب یہ تمہارا فرض ہے کہ اس آگ کو دلوں تک پہنچاؤ، جاؤ تمہارا سفر بہت طویل ہے ، کٹھن اور دشوار ہے مگر یہ یاد رکھنا کہ مہا نگری کے لوگوں کی نظریں تمہاری راہ دیکھ رہی ہیں۔‘‘
جب وہ آگ لے کر میں اپنی بستی کی طرف بڑھا تو، بستی والوں نے خوف زدہ نظروں سے مجھے دیکھا، پھر دروازے اور کھڑکیا ں بند ہوگئیں۔ دن گزر گیا مگر نہ کسی گھر کی کھڑکی کھلی نہ دروازہ۔۔۔ ہر وقت ادھم مچانے والے بچو ں کو بھی چھپا دیا گیا تھا، مگر سرگوشیاں ہورہی تھیں۔
’’یہ بہت برا ہوا، اس آگ کو ہماری بستی میں نہیں آنا چاہئے تھا، یہ آگ ہمیشہ تباہی لائی ہے، مکانات جلے ہیں، خون بہا ہے۔‘‘
رات ہوئی تو میرے دوست دھیرے سے دروازہ کھول کر میرے پاس آئے۔
’’تم نے بہت برا کیا جو مہانگری گئے اور پھر اس آگ کو لے آئے۔‘‘
’’کیا تم اس آگ سے واقف ہو؟‘‘
’’ہاں۔۔۔ اور اس بوڑھے سے بھی جس نے اپنا مشن تمہارے سپرد کیا ہے۔ جب وہ تمہاری عمر کا تھا تو ایک بوڑھے نے یہ آگ اسے سونپی تھی اور تیس سال پہلے اس نے اپنا مشن پورا کیا تھا مگر حاصل کیا ہوا؟ خلیجیں اور گہری ہوگئیں، آسمان اور دور ہوگیا، سورج اور نیچے اتر آیا، زمین پیروں سے مزید سرک گئی، یہ سب کچھ جو تمہارے لئے نیا ہے، بہت دنوں سے ہے، شاید جب سے دنیا بنی ہے، کتنی کوششیں ہوئیں، تین آنکھوں والے آئے اور چلے گئے مگر مہانگری پھیلتی گئی، اس لئے تم یہ آگ دفن کردو، اس کا مقصد تباہی ہے صرف تباہی۔۔۔‘‘
میں نے ان سے بحث نہ کی کہ بحث برائے بحث سے کیا حاصل؟ چپ چاپ ان کی باتیں سنتا رہا۔ میری خموشی سے جب وہ پریشان ہوگئے تو انکے چہرے رنگ بدلنے لگے۔
’’تمہاری خموشی سنگین ہے، سانپ کے بل میں ہاتھ ڈال کر سانپ پکڑنے کو ہم بہادری نہیں کہیں گے، ہمیں امید ہے تم ہماری باتیں سمجھ گئے ہوگے۔‘‘
جب وہ چلے گئے تو میں نے دھیرے سے دروازہ کھولا، سڑک سورہی تھی، میں نے مقدس آگ کو سینے سے لگایا اور کالج ہوسٹل کا رخ کیا۔
انہیں شاید میرا ہی انتظار تھا کیونکہ کمروں کے دروازے کھلے ہوئے تھے اور وہ سب جاگ رہے تھے۔
’’دوستو! میں مہانگری سے تمہارے لیے ایک سوغات لایا ہوں، میں نے آگ کا برتن ان کے سامنے رکھ کر وہاں کی کہانیاں سنائیں، وہ سب آگ کے شعلوں پر نظریں جمائے کہانیاں سنتے رہے، ان کی مٹھیاں بھنچی ہوئی تھیں۔
ہمیں اس مشن کو پورا کرنا ہے، وہ ہاتھ کاٹ ڈالنے ہیں جو مہانگری کی توسیع کر رہے ہیں۔ ہمیں ایک ایسا نظام لانا ہے جہاں کچا نہ بکے اور کچے کے عوض برہنہ لڑکیاں اپنی عصمتوں کا سودا نہ کریں، کوئی بوڑھا گلیوں میں بھیک نہ مانگے، ہمیں مہانگری کی جگہ ایک نئی بستی بسانی ہے، کیا آپ میرے ساتھ ہیں؟‘‘
سب نے خموشی سے اپنے ہاتھ اٹھا دیے تو میں نے کہا، ہم اس مقدس آگ میں اپنا لہو گراکر قسم کھائیں کہ ہم اس مشن کو کامیاب بنائیں گے۔
انہوں نے اپنی کلائیایں دانتوں سے نوچ ڈالیں اور آگ میں اپنا خون ٹپکایا۔
’’جس طرح ایک جلتی ہوئی موم بتی سے سیکڑوں موم بتیاں جلائی جاتی ہیں ، اسی طرح ہم اس آگ سے ہر گھر میں چراغ جلائیں گے، اندھیرا دور کریں گے، مہانگری کے تاجروں کو پھونک ڈالیں گے ہم۔۔۔‘‘
اور صبح ہوئی تو وہ گیٹ سے باہرآئے، ان کے ہاتھوں میں جلتی ہوئی مشعلیں تھیں اور چہروں پر غیض و غضب، کئی جگہوں سے شعلے اٹھے ، ریل لائنیں اکھڑ گئیں، اور وہ پٹریوں پر بیٹھ گئے، اونچے ایوان میں کھلبلی مچ گئی۔ ہنگامی میٹنگیں ہوئیں اور پھر پولیس گاڑیاں اسپاٹ کی طرف روانہ کی گئیں۔
چوہے اور بلی کا کھیل شروع ہوگیا، ایمبولینس جیپوں کا تعاقب کرنے لگیں، لاشوں کے بیوپار کا موسم تھا، قید خانے بھر گئے، پگھلے ہوئے سیسے تعاقب میں دوڑنے لگے، اور بوڑھی دھرتی نے جوان خون جی بھر کے پیا، تب کچھ سن رسیدہ لوگ ان کے پاس آئے۔
’’ہمیں تمہارے مشن سے ہمدردی ہے، تمہارے عزم و حوصلے پر بھروسہ ہے، ہمارا مشن بھی یہ ہے کہ مگر تم لوگوں جیسی طاقت نہیں، اب تم لوگ مل گئے ہو تو ہمارے خواب شرمندہ تعبیر ہوں گے۔‘‘
جانے پہچانے لوگ تھے، ان کے چہروں پر پڑی ہوئی جھریوں میں ان گنت کہانیاں تھیں، تجربہ تھا، جس کی انہیں ضرورت تھی۔
’’جب ہمیں کوئی نیا مکان بنانا ہوتا ہے تو پرانا مکان گرانا پڑتا ہے، جھاڑو جھنکاڑ صاف کرنا پڑتا ہے، زمین ہموار کرنی پڑتی ہے، لہٰذا پہلے ہمیں اس اونچے ایوان کوڈھا دینا ہے تاکہ ہم آزادی سے اپنے خوابوں کو پورا کرسکیں، مگر ہمیں بہت ہوشیار رہنا ہے کیونکہ مقابلہ ان لوگوں سے ہے جن کے دماغ میں شیطان کا بسیرا ہے، جن کے چاروں طرف آہنی دیواریں ہیں اورجو طاقت ور ہیں، لہٰذا۔۔۔‘‘
انہوں نے اقرار میں سرہلایا، ’’ہمیں روشنی چاہئے، ان سلوٹوں کی گرد چاہئے جو ہمارے راستوں میں ستاروں کی طرح چمکیں۔‘‘ وہ زیر لب مسکرائے، ’’ہماری نیک تمنائیں تمہارے ساتھ ہیں، سب سے پہلے اس آگ کو گھر گھر پہنچانا ہے، ہر گھر میں چراغ جلانا ہے، لوگوں کو کہانیاں سنانی ہیں، تاکہ آنے والے دنو ں میں جب وہ اچانک گھروں سے نکل پڑیں تو اونچے ایوان کی دیواریں لرزنے لگیں اور پھر زمیں بوس ہوجائیں۔ یہ کام اجتماعی طور پر بھی ہوگا اور انفرادی طو رپر بھی۔‘‘
پردے کے پیچھے چھپی ہوئی آنکھیں حالات کا جائزہ لے رہی تھیں، ہنگامی میٹنگیں ہورہی تھی، لائحہ عمل مرتب ہورہا تھا اور اس سے پہلے کہ مشعل بردار اپنے منصوبے پر عمل کریں، اعلان کرنے والا گلی گلی چیخ رہا تھا۔
’’شہر کے باہر خاص و عام کو اطلاع دی جاتی ہے کہ وہ آج ہی اپنے ہاتھ اور زبانیں سرکاری خزانے میں جمع کرادیں، جس نے حکمِ عدولی کی وہ کڑی سزا سے نہیں بچ سکتا، بھاگ نہیں سکتا، کیوں کہ شہر کے چاروں طرف دیوار کھینچ دی گئی ہے حکم سرکار کا، ڈگڈگ ۔۔۔ ڈگڈگ۔۔۔‘‘
پھر جیپیں روانہ ہوئیں اور سن رسیدہ لوگ اسمیں بٹھا دیے گئے، پھر وہ کالجوں اور اسکولوں کے گیٹوں پر رکیں، پھر گھروں کے دروازوں پر ، پھر شاہراہوں کی ناکہ بندی کردی گئی، جوبھی گھر سے باہر نکلا مصلوب ہوگیا۔
خوف و ہراس نے خیمے گاڑ دیئے، دروازے پردستکیں ہوش اڑانے لگیں، جیپوں کی گھڑگھڑاہٹ سے لہو چلنے لگا، لوگ چلتے تو چونک چونک کر باتیں کرتے تو سرگوشیوں میں اور پھر اس طرح گھبراکر ادھر ادھر دیکھنے لگتے جیسے بلا ان کے آس پاس ہو۔
میں تہہ خانے میں چھپا ہوا تمام دن کاغذ سیاہ کرتا اور میرے ساتھی اسے دانشوروں کے نام بھیج دیتے، خطرات بڑھ گئے تھے، پھانسی کا پھندا ہر وقت گلے میں محسوس ہوتا، ہاتھ شل ہونے لگے تھے، آگ بجھنے لگی تھی، تب ہی ہوا نے سرگوشی کی۔
’’وہ آرہے ہیں۔‘‘
میں نے باہر نکل کردیکھا، سن رسیدہ لوگ دروازے پر کھڑے تھے، ان کے چہرے زرد تھے، مگر آنکھوں میں چمک تھی، باتوں میں طوفان کا شور تھا، انہیں دیکھ کر گھروں کے دروازے کھلے اور پہلی بار لوگوں نے قدم باہر نکالا۔ ان سے باتیں کیں، مجھ سے آگ مانگی اور اپنے گھروں کے اوپر اونچے بانس میں ٹانگ دیا۔
تب میں پھر مہانگری گیا، وہ مجھے پہچان کر میرے گرد جمع ہوگئے، مجھ سے حساب مانگا گیا، میں نے انہیں تفصیل سے حالات بتائے، امتحان کی گھڑی سر پر آگئی ہے، اگر اس گھڑی میں آپ کے قدم پیچھے رہ گئے تو ہم سب صلیب پر چڑھا دیئے جائیں گے اور آپ کی حالت دیکھنے کوئی نہیں آئے گا اور مہا نگری شہرِ خموشاں میں تبدیل ہوجائے گی، منصوبہ یہی ہے۔۔۔ اس لئے جس دن آسمان پر بادل چھائیں اور تیز ہوا چلے، آپ گھروں سے باہر نکل کر کھلے میدان میں جمع ہوجائیں۔ خبردار کوئی اپنے گھر میں نہ رہے، وہ دن فیصلے کا دن ہوگا، آپ کی تقدیر کے فیصلے کا دن ، تاریکی کے خاتمے کا دن۔
ایوان سے غلطی ہوچکی ہے۔
انہوں نے قسمیں کھاکر مجھے یقین دلایا کہ ایسا ہی ہوگا اوراس کے سوا کچھ نہ ہوگا۔
آگ گھر گھر ، گلی گلی پہنچ چکی تھی اور ہم دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ آسمان پر نظریں جمائے ہوئے تھے، بادل کب اٹھے گا، تیز ہوائیں کب چلیں گی، پھر دیکھتے ہی دیکھتے آسمان بادلوں سے ڈھک گیا، تیز ہوائیں چلیں، گھروں پر استادہ آگ کی چنگاریاں شعلے بن گئیں اوراونچا ا یوان شعلوں کی لپیٹ میں آگیا۔
لوگ گھروں سے باہر نکل آئے، ان کے شور سے دیواریں لرزنے لگیں اور جب صبح ہوئی تو اونچا ایوان جل کر خاکستر ہوچکا تھا، لوگ خوشی سے دیوانے ہوگئے، مہانگری میں چراغاں ہوا، جشن منایا گیا، مجھے پھولوں سے ڈھک دیا گیا۔
’’واقعی تم سچے ہو، تمہاری باتیں سچی ہیں، ہمیں یقین ہے تم جلد ہی وہ سب کچھ کروگے جس کا تم نے وعدہ کیا ہے، ہم اس دن کے منتظر ہیں۔‘‘
سن رسیدہ لوگوں نے ذمہ داریاں سنبھال لیں اور مجھے یقین دلایا گیا کہ جلد ہی بل ڈوزر مہانگری بھیج دیئے جائیں گے تاکہ زمین ہموار کر کے نئی بستی کی بنیاد رکھی جائے ، ہم نقشے بنا رہے ہیں۔
میں بھی مطمئن ہوگیا کہ اب سب کچھ آسان ہے۔
مگر ایک کے بعد ایک کر کے بہت سادن گزر گیا، سن رسیدہ لوگ پہلے تو آپس میں لڑتے رہے پھر اونچے ایوان کے خلاف تحقیقات میں لگ گئے، انتقام کی آگ ان کے دلوں میں بھڑک رہی تھی، اسے شانت کرنا ضروری تھا۔ یہ خطرہ دور کرنا تھا اس لئے انہوں نے اسکولوں اور کالجوں کے میدانوں میں بڑے بڑے بانس گڑوا دیے کہ مشعل برداروں کی توجہ ایوان کی طرف سے ہٹ جائے اور وہ آپس میں ہی لڑتے رہیں۔
میں نے جب بلڈوزر کے بارے میں پوچھا، مجھے بتایا گیا کہ پلان آخری منزلوں میں ہے، جلد ہی بلڈوزر روانہ کئے جائیں گے۔
اور ایک دن جب میں بلڈوزر کے انتظار میں شاہراہ پر نظریں جمائے ہوئے تھا، کچھ لوگ مہانگری کی طرف آئے، ان کے چہرے سرخ تھے، آنکھیں انگاروں کی طرح دہک رہی تھی، ان کے ہاتھوں میں پٹرول کے ٹن تھے، وہ میرے پاس سے گزرتے ہوئے۔ ایک جھونپڑی کے پاس رکے، پٹرول کے ٹن کا منہ زمین کی طرف کردیا گیا پھر ان میں سے ایک نے بیڑی سلگائی۔
آگ کے شعلے اپنی لمبی لمبی زبانیں نکالے مکینوں کی طرف بڑھتے لگے، جب وہ گھبرا کر باہر کی طرف بھاگے تو باہر کھڑے لوگوں نے انہیں جلتی ہوئی آگ میں ڈھکیل دیا ۔ چیخیں اور وحشیانہ قہقہے۔۔۔
’’بند کرو خدا کے لئے یہ خونی ڈرامہ بند کرو،‘‘ میں نے ان کے ہاتھ پکڑنے چاہے تو مجھے دھکا دے کر زمین پر گرا دیا گیا اور میری گردن پر جوتے کا دباؤ ڈال کر دھمکی دی گئی۔
’’خاموش پڑے رہو ورنہ پیروں کا دباؤ بڑھ جائے گا اور پھر۔۔۔‘‘
مہانگری کے لوگ خوف زدہ نظروں سے یہ خونی ڈرامہ دیکھ رہے تھے۔
جھوپڑی جل گئی ، چیخیں اور کراہیں راکھ ہوگئیں تو انہوں نے اپنے ہاتھ جھاڑے، میری پسلی میں ٹھوکر لگائی اور لوٹ گئے، میں نے سن رسیدہ لوگوں کو اپنی ٹوٹی ہوئی پسلیاں دکھانی چاہیں، جلی ہوئی جھوپڑی اور اس میں پڑی ہوئی ہڈیاں دکھانی چاہیں تو وہ بڑے مصروف تھے۔
بجھے ہوئے لہجے میں مجرموں کو سخت سے سخت سزائیں دینے کا وعدہ کیا گیا اور پھر وہ اپنے کام میں مصروف ہوگئے۔
ابھی میری پسلیوں کا زخم ہرا ہی تھا کہ وہ پھر مہانگری میں آئے اور مہتو کے گھر میں داخل ہوگئے، جب ان کا شکار بھاگ نکلا تو انہو ں نے مہتو کے سامنے اس کی بیوی کی عصمت لوٹ لی۔
وہ پھر آئے اور نویں جماعت کے طالب علم کو کوٹھے پر گھسیٹ لے گئے۔
پھر ان کے ساتھ جیپیں ا ٓئیں اور احتجاجیوں پر پگھلے ہوئے سیسوں کی بارش کی گئی۔
’’ہماری سرکار ہے ہم جو چاہیں گے کریں گے۔‘‘
اور میں ایک ٹوٹی ہوئی دیوار سے ٹیک لگائے سب کچھ دیکھ رہا ہوں، مہانگری میں ماسک لگائے ہوئے لوگوں کی آمد بڑھ گئی ہے، لڑکیوں کے ساتھ عورتوں کے لباس بھی اتر رہے ہیں، کچے کی قیمت اور گر گئی ہے، جھوپڑوں کا اندھیرا اور بڑھ گیا ہے، چولھے بجھنے لگے ہیں۔
خلیجیں اور گہری ہوگئیں، فاصلے اور بڑھ گئے، آسمان اور دور ہوگیا، سورج اور نیچے اتر آیا، زمین پیروں سے مزید سرک گئی، تین آنکھوں والے آئے اور چلے گئے، مہانگری پھیلتی گئی، حالت بد سے بدتر ہوتی گئی۔۔۔ ہوتی گئی۔
میں اپنے سر پر ہاتھ پھیرتا ہوں، میرے بال سفید ہوگئے ہیں، میں اپنا چہرہ چھوتا ہوں، جھریوں نے جال بن دیا ہے۔
میری آنکھیں دیکھ رہی ہیں۔
شکار کیا ہوا، ہرن درمیان میں رکھا ہوا ہے۔
اور ٹولیوں میں بٹے ہوئے بھوکے بھیڑیے آپس میں چھینا جھپٹی کر رہے ہیں۔