مفتوحہ چیتھڑا

جنگی بیوہ کا نا مکمل گیت
قریبی دریا میں کچھ سپاہیوں
کے ساتھ ڈوب گیا


گھوڑے لاشوں کے زخموں میں
دوڑتے دوڑتے گم ہو گئے


سپاہی تلوار کی دھار سے لڑھکتے ہوئے
میدان جنگ کے وسط میں فتح
کا لفظ زمین پر لکھنے لگے


میدان جنگ گھومتا ہوا
لشکر کے پیروں کے نیچے سے
سرک کر ہوا کے ساتھ مل کر
ملک کی حدود کو وسیع کرنے لگ گیا


سپہ سالار کا گونجتا ہوا رجز
بہت سے سپاہیوں کے جنازے
میں تبدیل ہو گیا


سپاہیوں کی لاشیں تلوار کے دستے پر
لگے پسینے سے پہلے خشک ہو کر
میدان جنگ کی نمایاں قبریں بن گئیں
آدمی جانتا ہے کہ تلوار کی دھار سے
گردنیں تو کاٹی جا سکتی ہیں
مگر وہ رجز قتل نہیں کئے جا سکتے
جنہیں یاد کرنے کے لیے سپاہیوں نے
ماؤں کے پستانوں سے دودھ سے
زیادہ زبان کی تیزی کو حاصل کیا