شور احساس میں ایسا ہے کہ محشر کہئے

شور احساس میں ایسا ہے کہ محشر کہئے
ہر نئے شہر کو چیخوں کا سمندر کہئے


دن کا صحرا یہ سیہ دھوپ کے امنڈے لشکر
دل کو تپتے ہوئے نیزے پہ گل تر کہئے


وہ ہیں آکاش کا منظر کئی رنگوں کی طرح
بند شیشوں میں مجھے کرب کا دفتر کہئے


تم سہی پھر بھی تو مرجھا گئے جھیلوں میں کنول
ان ہواؤں کو دبی آگ کی چادر کہئے


رات دن برسے ہیں پھولوں میں مگر پیاس رہی
کیسے بادل میں انہیں زہر کی گاگر کہئے


درد بے درد ہے بے حس ہیں حسوں کے پیکر
دل کی آواز ہے شیشوں کو بھی پتھر کہئے


فکر و غم سب کے مکانوں میں بسے ہیں یکساں
شیش محلوں کو مرے گھر کے برابر کہئے


وہ جو آ جائیں محبت کا اجالا بن کر
چاند کو رنگ بھری رات کا جھومر کہئے


آسماں پر ہے یہ اسرارؔ زمیں پر ہے کبھی
دل کو آفاق میں اڑتا ہوا شہ پر کہئے