مہکے ہوئے گلوں کا چمن بولنے لگا
مہکے ہوئے گلوں کا چمن بولنے لگا
وہ چپ ہوا تو اس کا بدن بولنے لگا
آنچل ہے کہکشاں تو وہ خود بھی ہے چاند سا
باہوں میں میری آ کے گگن بولنے لگا
تابانیوں میں اس کی ہے موج وفا کی گونج
دن چپ ہوا تو دل کا رتن بولنے لگا
بولی گئی تھی درد کے موسم میں جو کبھی
پھر وہ زبان اپنا وطن بولنے لگا
خاموش رہ کے اس نے گزاری تھی زندگی
وہ شخص جب مرا تو کفن بولنے لگا
دل کی حویلیوں کے ہوئے آئنے خموش
شہر انا میں سنگ کہن بولنے لگا
آہن کے شور و شر میں ہے اسرارؔ وہ اثر
لہجے میں دھن کے آج کا فن بولنے لگا