معبود سے
ابتدا ہو گئی موت کے گیت کی
ہے ہواؤں میں دھن دکھ کے سنگیت کی
شہر دکھنے لگا ہے بیابان سا
رات سنسان سی دن پریشان سا
ساری مانوس گلیاں ہیں انجان سی
زندگی چند لمحوں کی مہمان سی
میرے معبود سانسیں بدن کے لیے
ایک زنجیر من کے ہرن کے لیے
دے چھناکا کوئی خامشی کے لیے
کوئی جملہ کسی کی ہنسی کے لیے
زرد ہونٹوں پے کوئی دعا بھیج دے
دوستوں کے لیے قہقہہ بھیج دے
بھیج دے ادھ جگی آنکھوں میں خواب کو
لمحے بھر کا سکوں میرے احباب کو
تھوڑا نان و نمک ہر شکم کے لیے
تھوڑی مسکان ہر چشم نم کے لیے
اے خدا میری سن لے خدا کے لیے
کوئی تعویذ دے اس بلا کے لیے