لو آفتاب نے سب ختم اختلاف کیا
لو آفتاب نے سب ختم اختلاف کیا
دھواں دھواں تھے جو منظر سبھی کو صاف کیا
شفق کا لال دوپٹا اوڑھا کے وادی کو
وجود عشق کا سورج نے اعتراف کیا
کسی خیال میں غرقاب گرم سانسوں نے
دبی ہوئی کسی حسرت کا انکشاف کیا
اک آبشار کی شفاف نرم ہلچل نے
کمال کر دیا سنگ بدن شگاف کیا
کہ بازگشت تو جاری ہے ان گھٹاؤں کی
پہ بارشوں نے کہاں جا کے اعتکاف کیا
گھٹا نے چاند کا گھونگھٹ سنوارنے کے لئے
حصار نور میں سو مرتبہ طواف کیا
تمہارے خوف سے ہم منہ چھپائے پھرتے ہیں
یہ روشنی سے اندھیروں نے اعتراف کیا