شیشے کا گھر
استاد: کیوں کہا جاتا ہے کہ شیشے کے مکان میں بیٹھ کر پتھر نہیں مارنے چاہئے۔ شاگرد: اس طرح سب کو پتہ لگ جاتا ہے کہ پتھر کون مار رہا ہے۔
استاد: کیوں کہا جاتا ہے کہ شیشے کے مکان میں بیٹھ کر پتھر نہیں مارنے چاہئے۔ شاگرد: اس طرح سب کو پتہ لگ جاتا ہے کہ پتھر کون مار رہا ہے۔
’’دیکھنا بیٹا اس وقت کیا بج رہا ہے؟‘‘ باپ نے بیٹے سے پوچھا۔ بیٹا بولا ’’ابا جان ریڈیو بج رہا ہے۔‘‘
باپ سو رہا تھا اوراس کے خراٹے گونچ رہے تھے۔ ننھا بچہ قریب ہی کھللونوں سے کھیل رہا تھا۔ اچانک باپ نے کروٹ لی اور خراٹے بند ہوگئے بچے نے باپ کی طرف دیکھا اور چلایا: ’’امی ۔ امی جلدی آؤ۔ ابو کا انجن خراب ہوگیاہے‘‘۔
استاد (شاگرد سے) ’’پانی پانی ہونا‘‘ کا جملہ بناؤ۔ شاگرد (معصومیت سے) میں نے برف کا ٹکڑا دھوپ میں رکھا تو وہ پانی پانی ہوگیا۔
طاہر (دادا جان کو مسکراتے دیکھ کر): دادا جان! آپ رسالہ پڑھتے ہوئے مسکرا کیوں رہے ہیں؟۔ دادا: بیٹا! جب میں تمہاری عمر کا تھا تو میں نے رسالے میں اس وقت ایک لطیفہ لکھ کر بھیجا تھا، وہ آج شائع ہوا ہے۔
استاد (شاگرد سے) : دستک کو جملے میں استعمال کرو۔ شاگرد: جناب مجھے دس تک گنتی آتی ہے۔
ایک صاحب اشرف نامی نے اشرف نگر سے اپنی بیوی شریفن کو اشرفی بھیجی۔ نوکر: سریفن بیوی کو اسرف بابو نے اسرفی بھیجی ہے۔ بیوی: ارے موئے کہیں تو شین بولا ہوتا۔ نوکر:شب کو شلام کہا ہے۔
جب علامہ اقبالؔ کی عمر گیارہ برس کی تھی اور وہ اسکول میں پڑھتے تھے تو ایک دن ان کو اسکول پہچنے میں دیر ہوگئی۔ ماسٹر صاحب نے پوچھا ۔ ’’اقبال دیر سے کیوں آئے؟‘‘ علامہ اقبالؔ نے بے ساختہ جواب دیا۔ ’’اقبال دیر ہی میں آتا ہے‘‘۔
بیٹا اسکول سے واپس آکر ماں سے بولا: ’’امی! امی! دیکھئے تو میرے سر پر کیا ہیں؟‘‘ ماں نے غور سے دیکھ کر کہا: ’’بیٹے تمہارے سر پر تو صرف بال ہیں۔‘‘ ’’کیا صرف بال؟‘‘ بیٹے نے حیرت سے پوچھا ماں نے کہا: ’’ہاں بھئی صرف اور صرف بال ہیں، اس کے سوا کچھ نہیں۔‘‘ بیٹے نے کہا: ’’امی! ...
استاد: ’’وہ کون سی چیز ہے۔ جو ہر طرف پھیلی ہوئی ہے اور اگر ہم کمرے کے کواڑ بند کردیں تو بھی اندر آجائے گی۔‘‘ لڑکا: جلے ہوئے سالن کی بو۔