لفظوں کے کاروبار میں پہچان ہو گئیں
لفظوں کے کاروبار میں پہچان ہو گئیں
جان سخن سے آپ مری جان ہو گئیں
شاید انہیں بھی گال کو چھونے کی لت لگی
زلفیں حسین رخ پہ پریشان ہو گئیں
مجھ کو یہ کہہ رہی ہیں ادھر سے نہیں گزر
راہیں تمہارے شہر کی انجان ہو گئیں
صورت تمہاری دل میں حفاظت کے ساتھ ہے
یادوں کی ٹولیاں جو نگہبان ہو گئیں
اس انتظار میں ہے نگاہوں کا حال یوں
تکتے تمہاری راہ کو بے جان ہو گئیں
ملنا نہیں ہے آپ نے مجھ کو یقین ہے
پورا نہ ہو سکے جو وہ ارمان ہو گئیں
اس زندگانی میں مرا رہبر ترا جمال
جتنی بھی ٹھوکریں لگیں آسان ہو گئیں
مدت ہوئی ہے آپ نے سینے رکھا نہ ہاتھ
گلیاں یہ دل کی تب سے ہیں ویران ہو گئیں
لکھا ہے میرے ہاتھ میں اب تم نہیں ہو ساتھ
آئیں گی جو بھی گھڑیاں وہ نقصان ہو گئیں
یہ تو ہمارے بیچ محبت کے راز تھے
باتیں لکھی ہیں من کی تو دیوان ہو گئیں
دھڑکے ہے دل میں نام ہمیشہ جناب کا
دلبر کہاں ہیں آپ تو جانان ہو گئیں