لفظ تو ملتے نہیں اظہار محسوسات کو

لفظ تو ملتے نہیں اظہار محسوسات کو
اب وہ سمجھیں یا نہ سمجھیں میرے دل کی بات کو


در حقیقت طور پر موسیٰ کو سوجھی ہی نہیں
ورنہ آنکھیں جذب کر لیتیں تجلیات کو


میری آگے سے ہٹا لو یا تو یہ مبہم کتاب
یا پلٹنے دو مجھے اوراق موجودات کو


ہائے مت پوچھو مریض غم کی کیفیات کرب
نیند کیا غفلت سی ہو جاتی ہی پچھلی رات کو


میری آہوں میں بقول ان کے اگر طاقت نہیں
چرخ سے پھر کیوں ستارے ٹوٹتے ہیں رات کو


پہلے تو دل میں خدا جانے کدھر سے آ چھپے
پھر ستم یہ ہے ابھارا میرے محسوسات کو


تک رہا ہے پھر کوئی حسرت سے سوئے آسماں
پھر کہیں جذبہ نہ آ جائے تجلیات کو


منہ اندھیرے جب جہاں سوتا ہے مدہوشی کی نیند
میں سنا کرتا ہوں ساز روح کے نغمات کو


چاندنی ہو یا اندھیری مجھ کو طالبؔ واسطہ
میں تو آفت ہی سمجھتا ہوں ہمیشہ رات کو