لبوں پر شعر آنے میں کہاں اب دیر لگتی ہے
لبوں پر شعر آنے میں کہاں اب دیر لگتی ہے
غزل کوئی سنانے میں کہاں اب دیر لگتی ہے
فقط آنکھیں ملانے میں کہاں اب دیر لگتی ہے
محبت کو بڑھانے میں کہاں اب دیر لگتی ہے
زباں سے بات نکلی ہو وہ پوری ہو نہ ہو صاحب
قسم یوں ہی اٹھانے میں کہاں اب دیر لگتی ہے
روایت ہو گئی اب تو محبت کرنے ہونے میں
کسی کا دل دکھانے میں کہاں اب دیر لگتی ہے
یہ تنہائی اداسی اب مرا معمول ہے یارو
دو چار آنسو بہانے میں کہاں اب دیر لگتی ہے
نہاں باتیں ہوں جتنی بھی فقط پکا ارادہ ہو
حقیقت کو دکھانے میں کہاں اب دیر لگتی ہے
ذرا سی آگ بھڑکا کر جلا دو خود کو پھر اس میں
سبھی سپنے جلانے میں کہاں اب دیر لگتی ہے
جہاں جانا ہو نا ممکن مگر اب شوخؔ جی ہم کو
وہاں پر آنے جانے میں کہاں اب دیر لگتی ہے