لب خموش مجھے آہ آہ کرنے دے
لب خموش مجھے آہ آہ کرنے دے
گناہ عشق سہی یہ گناہ کرنے دے
تو کامیاب نگاہوں کو شرمسار نہ کر
اسی طرح ستم بے پناہ کرنے دے
ابھی سے درس حقیقت ذرا ٹھہر واعظ
خرد کو اور خراب نگاہ کرنے دے
نہ رات دن کی خبر ہے نہ آج کل کا پتہ
کسی قرار شکن سے نباہ کرنے دے
نئی کماں ہے نئی مشق ہے نہ روک نگاہ
حریم دل کو مکمل تباہ کرنے دے
کہاں تری شب گیسو کہاں مری شب ہجر
مقابلہ بھی نصیب سیاہ کرنے دے
نہ رند ہوں نہ شریعت سے ضد مجھے طالبؔ
کوئی بلا سے کرے اشتباہ کرنے دے