کیوں نہ رہ پائے اس جہاں سے پرے

کیوں نہ رہ پائے اس جہاں سے پرے
اور بھی تھے جہاں یہاں سے پرے


ہم جہاں پاس تیرے آ بیٹھے
تو اٹھا ہو گیا وہاں سے پرے


تلخیاں اور بڑھ گئیں دل کی
جب ہوئیں تلخیاں زباں سے پرے


یہ جو تو میری رہ میں حائل ہے
جانے کب ہوگا درمیاں سے پرے


میں تو اپنے بھی آس پاس نہیں
اور ہو جاؤں میں کہاں سے پرے


مجھ پہ سایہ نہ ڈالیے اپنا
مجھ کو رہنا ہے سائباں سے پرے


عشق وہ مار آستیں جس کا
زہر اترا ہے جسم و جاں سے پرے


مار کر ڈال دے جو چھاؤں میں
ہم بھلے ایسے مہرباں سے پرے


یوں تو ویراں ہے آشیاں بھی مگر
خاک اڑائیں گے آشیاں سے پرے


ہم جو کاسہ اٹھائے آ بیٹھے
اب کرو ہم کو آستاں سے پرے