کیوں نہ قرباں میں ہوں اس تکرار پر

کیوں نہ قرباں میں ہوں اس تکرار پر
پیار آتا ہے ترے انکار پر


ناز بے جا ہے ابھی گفتار پر
فیصلہ باقی ہے جب کردار پر


بام پر شاید وہ آئیں بے نقاب
چشم حسرت ہے در و دیوار پر


ہر کلی ہوتی ہے صدقے صبح و شام
تیرے گیسو اور ترے رخسار پر


خون سے میں نے بھی سینچا ہے چمن
حق ہے میرا بھی گل و گلزار پر


عشق میں دیر و حرم کو بھول جا
سر جھکا دے آستان یار پر


ہم وفاداری کی خاطر مر مٹے
یار کا لطف و کرم اغیار پر


حسن کے ہاتھوں میں آئی شاخ گل
عشق کی نظریں رہیں تلوار پر


چہرۂ ناہید و پرویں منفعل
ہے نظر ایک مطلع انوار پر


زخم اسلمؔ پھر ہرے ہونے لگے
ہے مسیحا کا کرم بیمار پر