کیا سبب تھا کس لئے دنیا سے میں ڈرتا رہا
کیا سبب تھا کس لئے دنیا سے میں ڈرتا رہا
سر جھکا کر جس نے جو بھی کہہ دیا کرتا رہا
سی دیا تھا میرے ہونٹوں کو زمانہ نے مگر
ذکر صبح و شام تیرا پھر بھی میں کرتا رہا
زندگی کے راستے میں زخم جو مجھ کو ملے
چپکے چپکے پیار کے مرہم سے وہ بھرتا رہا
جاتے جاتے وہ مجھے کہہ کر گئے تھے اس لیے
لمحہ لمحہ زندگی جیتا رہا مرتا رہا
سادگی کی میں نے یہ قیمت چکائی عمر بھر
جرم کوئی اور کرتا دنڈ میں بھرتا رہا