ہے کہاں کون ہے کیسا وہ نظر آتا ہے
ہے کہاں کون ہے کیسا وہ نظر آتا ہے
خود میں کم مجھ میں زیادہ وہ نظر آتا ہے
کیا تعلق ہے مرا اس سے بتاؤں کیسے
ہر دعا میں مجھے چہرہ وہ نظر آتا ہے
تشنگی جب مجھے دیدار کی تڑپائے تو
ایسے حالات میں دریا وہ نظر آتا ہے
گھیر لیتے ہیں مجھے جب بھی اندھیرے غم کے
میرا ہمدرد اکیلا وہ نظر آتا ہے
تم نے پوچھا کبھی سنتوشؔ سے جا کر یارو
کس لیے بھیڑ میں تنہا وہ نظر آتا ہے