اس نے بکھرے کاغذوں کو چھو کے صندل کر دیا
اس نے بکھرے کاغذوں کو چھو کے صندل کر دیا
اک ادھوری سی غزل کو یوں مکمل کر دیا
کچھ تو دیوانہ تھا میں پہلے ہی اس کے عشق میں
اس نے چلمن یوں ہٹائی مجھ کو پاگل کر دیا
اس کے جلووں کا کرشمہ تھا کہ جس نے دوستو
ساری دنیا کو مری آنکھوں سے اوجھل کر دیا
میں بہت الجھا ہوا تھا زندگی کے پھیر میں
تو نے میری جان لے کر مسئلہ حل کر دیا
اس نے یوں ڈالی عنایت کی نظر سنتوشؔ پر
چھین کر ہر اک خوشی غم کو مسلسل کر دیا