کیا رفو ہو زندگی سوزن جدا دھاگے الگ

کیا رفو ہو زندگی سوزن جدا دھاگے الگ
خواہش دل عالم امکان سے لاگے الگ


سوچ یہ بھی تو کبھی اے جزو تکمیل وجود
جسم ہو کیا معتبر سایہ جہاں لاگے الگ


کار لا حاصل نہیں تھی وقت کی بخیہ گری
پر زمانہ کر رہا ہے زخم سے دھاگے الگ


منزل ہستی تلک تو ساتھ کے امکان تھے
یوں بھی ہو جانا تھا جا کر اک ذرا آگے الگ


شوق زیبائش میں ہم کو فکر لے آئی جہاں
خاک کا پتلا جمال خاک سے لاگے الگ


کیا یہی ہے آنکھ کی وادی میں بسنے کا ثمر
دو پرندے عمر بھر تڑپے الگ جاگے الگ


خالق حسن تخیل ہوں ٹھکانہ ہے مرا
عالم سطح نظارہ سے ذرا آگے الگ