سونے سونے دار و رسن بتلاتے ہیں

سونے سونے دار و رسن بتلاتے ہیں
سچ کہنے سے لوگ بہت کتراتے ہیں


آنسو بن جاتے ہیں غم کہلاتے ہیں
وہ جذبے جو دل ہی میں مر جاتے ہیں


یہ ہے بات جدا وہ ہم سے کہہ نہ سکے
ورنہ خواب تو گونگے کو بھی آتے ہیں


جس کی جانب آنکھ اٹھانا مشکل ہو
ہم اس سچائی پر قلم اٹھاتے ہیں


ہر فرمائش آئندہ پر ٹالتا ہوں
بچے مجھ سے جھوٹ بہت بلواتے ہیں


دل تیری قربت میں بھی افسردہ ہے
کیا شاخوں پر بھی غنچے کمھلاتے ہیں


دیدہ و دل دونوں کیوں اک ساتھ بجھے
مہر و ماہ اکٹھے کب گہناتے ہیں


سائے پھل اور پھولوں کے بدلے نصرتؔ
سوچئے ہم اشجار کو کیا لوٹاتے ہیں