کیا خبر تھی ایک دن یہ حادثہ ہو جائے گا
کیا خبر تھی ایک دن یہ حادثہ ہو جائے گا
عمر بھر چاہا جسے وہ بے وفا ہو جائے گا
ہو اگر عزم مصمم خواہش منزل کے ساتھ
راہ کا پتھر بھی اک دن رہ نما ہو جائے گا
اس قدر بڑھنے لگی ہے ہر طرف آلودگی
سانس لینا آدمی کا مسئلہ ہو جائے گا
زندگی بھر ساتھ چلنے کی جو کھاتا ہے قسم
دیکھنا وہ راستے ہی میں جدا ہو جائے گا
اب تمہارا کوئی خط کوئی خبر ملتی نہیں
ایسے عالم میں تو جینا بھی سزا ہو جائے گا
سر اٹھاتے ہیں یہاں بھی عصر حاضر کے یزید
کل یہ خطہ بھی محاذ کربلا ہو جائے گا
کچھ نہ کچھ اعجازؔ نغمے لکھ وطن کے نام پر
اس طرح سے شاعری کا حق ادا ہو جائے گا