کیا کہیں یارو کیا کیا ہم پر عشق خرابی لایا ہے
کیا کہیں یارو کیا کیا ہم پر عشق خرابی لایا ہے
آنکھ سے لے کر دل تک جیسے اک دھندلکا چھایا ہے
جیسے دھنک آکاش پہ نکلے بادل کے چھٹ جانے پر
یوں ہی تیرے غم میں رو کر وقت سہانا آیا ہے
میری بات نہ سننے والے پوچھ اس سے تو حال مرا
آنسو ایک فسانہ بن کے پلکوں پر تھرایا ہے
بیت گئی ہے دل پہ قیامت لب پہ شکایت لا نہ سکے
آپ کو کیا معلوم کہ ہم نے جان کے دھوکا کھایا ہے
میری غزل کے آئینے میں دیکھ کے اپنا رنگ جمال
کس کس ناز سے سر کو جھکا کر کیا کیا وہ شرمایا ہے
رات حسینوں کے جمگھٹ میں کیا کیا ناز کے پھول کھلے
ساز طرب کی چھیڑ سے لیکن اور بھی دل گھبرایا ہے
راہ سے تیری ہٹ جانے کا جب بھی ہم نے عہد کیا
اک اک نقش قدم نے اٹھ کر پہروں ہمیں سمجھایا ہے
شاید اب کے بار تو ان سے صلح نہ ہو اس جنگ کے بعد
اب کے اپنے آپ کو ہم نے سنجیدہ سا پایا ہے
ایسی کیا تھی تجھ سے شکایت ایسا کیا تھا تجھ سے ملال
آج تری ادنیٰ سی عنایت دیکھ کے دل بھر آیا ہے