کیا چاہتا ہوں
نہ تکمیل عہد وفا چاہتا ہوں
نہ تجدید جور و جفا چاہتا ہوں
میں اک قلب بے مدعا چاہتا ہوں
ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
نہیں ہوگا کوئی بشر شوخ اتنا
کوئی بے ادب اس قدر شوخ اتنا
نہ موسیٰ ہوئے طور پر شوخ اتنا
ذرا سا تو دل ہوں مگر شوخ اتنا
وہی لن ترانی سنا چاہتا ہوں
جلے دل کا ارمان ہوں اہل محفل
مگر بزم کی جان ہوں اہل محفل
اسی پر میں قربان ہوں اہل محفل
کوئی دم کا مہمان ہوں اہل محفل
چراغ سحر ہوں بجھا چاہتا ہوں
کرم ہو کہ ہو دعوت باریابی
کہ ہو خانۂ دل کی میرے خرابی
ہزیمت ہو یا مژدۂ کامیابی
ستم ہو کہ ہو وعدۂ بے حجابی
کوئی بات سب سے جدا چاہتا ہوں
مشقت مبارک رہے زاہدوں کو
یہ زحمت مبارک رہے زاہدوں کو
یہ عشرت مبارک رہے زاہدوں کو
یہ جنت مبارک رہے زاہدوں کو
کہ ان کا میں بس سامنا چاہتا ہوں