دل سے جوش شباب جاتا ہے

دل سے جوش شباب جاتا ہے
زیست سے اضطراب جاتا ہے


رخ پہ ڈالے نقاب جاتا ہے
ابر میں ماہتاب جاتا ہے


جانے کو تو شباب جاتا ہے
کر کے مٹی خراب جاتا ہے


اپنا عہد شباب جاتا ہے
سر سے سارا عذاب جاتا ہے


رخ روشن پہ آئی ہیں زلفیں
ثور میں آفتاب جاتا ہے


دیکھیں گرتی ہیں بجلیاں کس پر
رخ سے سرکا نقاب جاتا ہے


فکر عالم سے ہو کے اب آزاد
دل سے خانہ خراب جاتا ہے


اس طرح جا رہا ہوں میں اصغرؔ
جیسے سرمست خواب جاتا ہے