کیا بتاؤں کہ اب خدا کیا ہے
کیا بتاؤں کہ اب خدا کیا ہے
آئنے میں یہ دوسرا کیا ہے
سر سے پا تک مری نگاہ میں ہو
منہ چھپانے سے فائدہ کیا ہے
مسکراتا ہے جان لے کر بھی
اب خدا جانے چاہتا کیا ہے
دعویٔ عشق ہم تو کر بیٹھے
تو سنا تیرا فیصلہ کیا ہے
ہے بہت کچھ ابھی تو پردے میں
دیکھتا جا ابھی ہوا کیا ہے
علم بھی اک حجاب ہے ناداں
جانتا ہے تو جانتا کیا ہے
وہ خدا ہو کہ ناخدا اے دلؔ
ڈوبنا ہے تو سوچتا کیا ہے