رمز آشنائے فصل بہاراں کوئی نہ تھا

رمز آشنائے فصل بہاراں کوئی نہ تھا
سب مدعی تھے چاک گریباں کوئی نہ تھا


دیوانے دشت میں بھی نصیب آزما چکے
واں بھی سکون قلب کا ساماں کوئی نہ تھا


کیا کیا ترے مریض کو تھے ناز درد پر
جب بس میں چارہ گر کے بھی درماں کوئی نہ تھا


شاید یہ کائنات تھی مے خانہ ان دنوں
جب امتیاز گبر و مسلماں کوئی نہ تھا


گھبرا کے کس کو راہ میں اے دلؔ پکارتے
اپنے سوا قریب رگ جاں کوئی نہ تھا