یادش بخیر ہے وہی چہرہ خیال میں
یادش بخیر ہے وہی چہرہ خیال میں
سو جنتیں جوان ہیں گویا خیال میں
کس شان سے شریک تری انجمن میں ہیں
بیٹھے ہوں جیسے ہم کہیں تنہا خیال میں
گزرا ہے عشق ہی میں یہ عالم بھی مدتوں
تھی شام ذہن میں نہ سویرا خیال میں
دیکھا تھا خواب میں انہیں نادم تو کیا کہیں
کیوں اب تک آ رہا ہے پسینہ خیال میں
اللہ رے یہ مقام ترے تشنہ کام کا
سوکھے پڑے ہیں سارے ہی دریا خیال میں
جگنو سے یک بہ یک جو فضا میں چمک اٹھے
یہ کون تھا ابھی ابھی کیا تھا خیال میں
اے دلؔ عجب وہ شہر ستم تھا کہ آج تک
ہے کوئی ادھ کھلا سا دریچہ خیال میں