نقد دل ہے کہ گریبان کے ہر تار میں ہے
نقد دل ہے کہ گریبان کے ہر تار میں ہے
حوصلہ اب بھی بہت تیرے خریدار میں ہے
یاں کوئی شعلہ بجاں اور بھی ٹھہرا ہوگا
کس قیامت کی تپش سایۂ دیوار میں ہے
کتنا ملتا ہے مرے قلب کی کیفیت سے
یہ جو ہنگامہ ترے کوچہ و بازار میں ہے
زخم احساس کو جو زہر ہرا ہی رکھے
تیغ آہن میں نہیں بات کی تلوار میں ہے
سارے گلشن کو جلانے کے لئے کافی ہے
ایک شعلہ جو دل مرغ گرفتار میں ہے
ضامن نشوونمائے گل تر ہے اے دلؔ
درد مندی کی خلش سی جو دل خار میں ہے