کوئی شاداب و حسیں شہر کا منظر دیکھو
کوئی شاداب و حسیں شہر کا منظر دیکھو
جھانک کر روزن احساس سے باہر دیکھو
میری آواز مرا جسم مرا چہرہ ہے
ہو جو ممکن تو مجھے ہاتھ لگا کر دیکھو
عمر بھر اپنا تعاقب کیا ہم نے در در
اور اس عکس کا اصرار تھا پیکر دیکھو
ایک سائے کی طرح ساتھ ہے بچوں کا ہجوم
دل ہے شیشہ تو ہر اک ہاتھ میں پتھر دیکھو
ایک تصویر لکیروں میں چھپی بیٹھی ہے
جسم کہتا ہے اسے ہاتھ لگا کر دیکھو
ایک خوشبو کی طرح روح سے لپٹے نہ رہو
کبھی مجھ کو بھی ذرا دور ہی رہ کر دیکھو
شاعری ٹھہری ہے اس دور میں لعنت پروازؔ
بیوی بچے کبھی گھر اور کبھی دفتر دیکھو