کوئی ہوتا یہاں اس سفر میں مرا

کوئی ہوتا یہاں اس سفر میں مرا
ساتھ دیتا کوئی اس ڈگر میں مرا


آج میں کھا رہا در بہ در ٹھوکریں
آشیاں تھا کبھی ہر شجر میں مرا


لوگ جو واہ واہی سے تھکتے نہ تھے
عیب دکھتا انہیں اب ہنر میں مرا


تو بھی چپکے سے دامن چھڑانا نہیں
ایک تو ہی تو ہے اس نگر میں مرا


اس کو تب میری باتوں پہ ہوگا یقیں
نام آ جائے گا جب خبر میں مرا


ہے بھرم اس کو اک پل میں ہو جائے گا
ہو نہ پایا کوئی عمر بھر میں مرا


کھائی تھیں جس نے قسمیں وہ چلتا بنا
چھوڑ کر کے سفینہ بھنور میں مرا