کوئی آئے کوئی جائے تماشہ اب نہیں ہوگا
کوئی آئے کوئی جائے تماشہ اب نہیں ہوگا
محبت آخری تھی یہ تماشہ اب نہیں ہوگا
نکلنا چاہتا ہے وہ حقیقت میں کہانی سے
گرا دو خواب کے پردے تماشہ اب نہیں ہوگا
سنا ہے اس کہانی میں نئے کردار آنے ہیں
سنا ہے نام سے میرے تماشہ اب نہیں ہوگا
تمہاری نذر کرتی ہوں تمام اشعار یہ میرے
کہ صفحوں پر سیاہی سے تماشہ اب نہیں ہوگا
سبب جو بھی ہو رسوائی کا ذمہ عشق کے سر ہے
خدایا خیر ہو مجھ سے تماشہ اب نہیں ہوگا
تمہیں حق ہے کرو شکوہ خزاں کی رت ہے جان من
قبائیں ہم نہ کھولیں گے تماشہ اب نہیں ہوگا
رہے گا عشق محو زیست بے شک آخری دم تک
مگر ہاں نام پر اس کے تماشہ اب نہیں ہوگا