کتنی محفوظ زندگی تھی کبھی

کتنی محفوظ زندگی تھی کبھی
دشمنی تھی نہ دوستی تھی کبھی


اب فقط قہقہے لگاتا ہوں
میری آنکھوں میں بھی نمی تھی کبھی


سوچ کر اب قدم اٹھاتا ہوں
میری راہوں میں گم رہی تھی کبھی


اب دھواں ہے جو پی رہے ہیں نم
آگ ہر موڑ پر لگی تھی کبھی


اب تو بدلا ہے اپنا پیمانہ
جو بری ہے وہی بھلی تھی کبھی


تھا سفید و سیاہ سے واقف
میری آنکھوں میں روشنی تھی کبھی


اب تو تسبیح لے کے بیٹھے ہیں
ہاتھ میں جن کے لبلبی تھی کبھی


سب کا محبوب ایک تھا ہمدمؔ
شہر میں ایک ہی گلی تھی کبھی