کتنا اداس اداس یہ دور حیات ہے
کتنا اداس اداس یہ دور حیات ہے
انساں کی زندگی نہیں جنگل کی رات ہے
جب چھڑ گئی غزل تری آنکھیں چمک اٹھیں
آواز میری جیسے ترے دل کی بات ہے
ڈھلتی ہے تیری یاد کی شبنم سے گرد غم
دشوار ورنہ کتنی یہ راہ حیات ہے
چھوڑا نہ تیری یاد نے اک لمحہ دل کا ساتھ
ہم تجھ سے بے خبر رہے یہ اور بات ہے
اے کاش تم بھی ایسے میں ہوتے مرے قریب
بھیگی ہوئی شراب میں ساون کی رات ہے
تم بھی وہی ہو میں بھی وہی ہوں پھر آج کیوں
وہ پرسش کرم ہے نہ وہ التفات ہے
اپنی تباہیوں کا گلا کس سے ہم کریں
دنیا کے ساتھ ساتھ تمہارا بھی ہات ہے
دل ان کی بزم ناز میں تصویر بن نہ جائے
کہنی کسی سے آج مجھے ایک بات ہے
کیوں کر اثر کرے نہ مرا شعر اے شہابؔ
میرے دل شکستہ کی یہ واردات ہے