آہ مضراب محبت کے سوا کچھ بھی نہیں

آہ مضراب محبت کے سوا کچھ بھی نہیں
ساز آہوں کی عبادت کے سوا کچھ بھی نہیں


زندگی پر جو کبھی تم نے عنایت کی تھی
اب وہ توفیق عنایت کے سوا کچھ بھی نہیں


اور حاصل ہو کوئی غم تو اجل کو سمجھیں
زندگی راز حقیقت کے سوا کچھ بھی نہیں


اور افسانۂ ماضی میں تو رکھا کیا ہے
اب سکوں لفظ روایت کے سوا کچھ بھی نہیں