کسی چراغ کی خواہش نہ جستجو مجھ کو
کسی چراغ کی خواہش نہ جستجو مجھ کو
میں خود میں جلتا رہوں یہ ہے آرزو مجھ کو
یہ اپنا آپ سمیٹا ہے میں نے مشکل سے
بکھر نہ جاؤں کہیں اس طرح نہ چھو مجھ کو
کسی کو فکر نہیں تھی میرے سوا تیری
وگر نہ بھول نہ جاتی کبھی کی تو مجھ کو
صلیب و نوک سناں شوک خود سری ہے مرا
ڈرا رہا ہے انہیں سے مرا عدو مجھ کو
دیا تھا اذن تکلم جسے کبھی میں نے
سکھا رہا ہے وہ انداز گفتگو مجھ کو