خوابوں خیالوں کی اپسرا
سخن فریب کوئی مہرباں کی طرح
دیار حسن ہے دنیا کی داستاں کی طرح
یہ مسکراتی ہوئی صبح و شام و شب کی دلہن
دل و نظر کے لیے سود بے زیاں کی طرح
یہ امتزاج زر شرق و غرب کا کلچر
نگاہ حسن لیے عشق عاشقاں کی طرح
حریر و ریشم و دیبا میں رنگ ناز و ادا
سکون دل کے لیے ہیں قرار جاں کی طرح
یہ رنگ رنگ کے عنواں لیے حسیں چہرے
صنم کدوں میں تخیل کے ہیں بتاں کی طرح
سڈول جسم کہ سرد رواں سر راہے
چلے ہیں ناز سے حوران آسماں کی طرح
یہ لہکی مہکی فضائیں یہ دل ربا پیکر
گلوں کے رنگ میں ڈوبے ہوئے جہاں کی طرح
یہ ربط و رقص و ترنم ہوا کی لہروں میں
قدم قدم پہ ادا ہائے مہوشاں کی طرح
یہ جگمگاتی ہوئی رات یہ دہکتے کنول
نجوم و ماہ و ثریا و کہکشاں کی طرح
یہ میرے خوابوں خیالوں کی اپسرا جس میں
نگاہ فکر و عمل تیر کی کماں کی طرح
مگر وطن بھی چھٹا دورؔ دل کی دل میں رہی
یہ بمبئی بھی نہ ہو خواب دیگراں کی طرح