خواب
دل کو سانسوں نے خستہ کیا
دھندلے ہو گئے آنکھ کے آئنے
اس لیے یہ زمیں مسکراتے ہوئے ہانپتی کانپتی دکھ رہی ہے
شب کے پچھلے پہر چھوٹنے والی اس ریل کی آخری سیٹیاں
یاد کی گٹھڑیاں
اور دل جیسے روشن علاقے میں گہرا اندھیرا
سماعت پہ تاریکیوں کا بنا ایک جالا
گماں ہو رہا ہے کہ تصویریں گیلی پڑی ہیں
اور ان پر مری دونوں آنکھیں جمی ہیں
یہی کہہ رہی ہیں
سندیسہ کوئی میرے بابا
مرے بھائی ماتھے پہ بوسہ