خشک پلکوں کو ترے در پہ بھگونے آیا

خشک پلکوں کو ترے در پہ بھگونے آیا
ایک مدت سے جو رویا نہ تھا رونے آیا


جانتا ہوں کہ نکلنا ہے یہاں سے مشکل
آج آنکھوں میں تری خود کو میں کھونے آیا


جس کے پاپوں کے لیے لاکھ سمندر کم ہیں
ایک دریا میں گناہوں کو وہ دھونے آیا


زندگی میں جو سکوں سے نہ کبھی سوتا تھا
اوڑھ کر آج کفن قبر میں سونے آیا


چھپ کے کرتا ہے درختوں کے لہو کا سودا
آپ کے سامنے پودوں کو جو بونے آیا