خوشیاں یاد نہیں ہیں اور غم یاد نہیں
خوشیاں یاد نہیں ہیں اور غم یاد نہیں
کیسا ہمدم ہے جس کو ہم یاد نہیں
ایک عرصے سے بھولا ہوا ہوں میں اس کو
ہوئیں تھیں میری آنکھیں کب نم یاد نہیں
ہم تو ازل سے تنہا تھے سو تنہا ہیں
غم وہ ملے ہیں خوشی کا عالم یاد نہیں
جس میں پھول کھلا کرتے ہیں الفت کے
کیا تم کو وہ پیار کا موسم یاد نہیں
کیسے جنوں نے گھیرا ڈالا گرد مرے
جو تم نے اپنائے وہ غم یاد نہیں
اس اندازے سے اجڑا یہ باغ وقاصؔ
جس دم میں تھا دم اب وہ دم یاد نہیں