ہجر کی شام آخری تو نہیں

ہجر کی شام آخری تو نہیں
میری ہے کون وہ مری تو نہیں


بات میری ہے کہ بچھڑتے ہیں
مانتا ہوں مگر کہی تو نہیں


تم کو جانا ہے تو چلی جاؤ
آنکھیں کھولیں ہیں تو گئی تو نہیں


کیا تھا وہ ہیر کی کہانی میں
جو یہاں پہ ہوا وہی تو نہیں


مسکراتے ہو میری غربت پر
یہ کسی پر سدا رہی تو نہیں


یہ جو چلتی ہے زندگی ہے مری
جس کو رکنا تھا وہ رکی تو نہیں