غم دل کو زمانے سے چھپانا بھی نہیں آتا

غم دل کو زمانے سے چھپانا بھی نہیں آتا
ہمیں تو ٹھیک سے آنسو بہانا بھی نہیں آتا


سجا کر کس طرح رکھی ہیں کمرے میں تری یادیں
اگرچہ ٹھیک سے ہم کو سجانا بھی نہیں آتا


رہوں گا کس طرح خواہش کی بستی میں اکیلا میں
کروں گا کیا مجھے پیسہ کمانا بھی نہیں آتا


بنیں گے کیا شکاری ہم تمہارے سامنے جاناں
لگانا ہم کو تیرے سا نشانہ بھی نہیں آتا


ستم گر آخری دیدار کر لو ہم چلے جائیں
یقین اپنی وفاؤں کا دلانا بھی نہیں آتا


محبت کو بھلا کیسے سمجھ پاؤگی تم ناداں
تمہیں تو ٹھیک سے ملنا ملانا بھی نہیں آتا


چلو اب توڑ ڈالو آخری رشتہ بھی ہم سے تم
یہ کہہ کر ساتھ یوسفؔ کو نبھانا بھی نہیں آتا