اپنی ہستی مٹائے پھرتا ہوں

اپنی ہستی مٹائے پھرتا ہوں
رنج کیا کیا اٹھائے پھرتا ہوں


شب گزرتی ہے اس کی یادوں میں
سارا دن لڑکھڑائے پھرتا ہوں


اب تو عادی ہوں درد سہنے کا
اب تو بس سر جھکائے پھرتا ہوں


عمر لمبی ہو میری آنکھوں کی
خواب تیرے سجائے پھرتا ہوں


آخری فرد ہوں قبیلے کا
دل میں یادیں بسائے پھرتا ہوں


سوگواری ہے میرے کمرے میں
ہجر کے دن منائے پھرتا ہوں


یہ مجھے کیا ہوا ہے جان جاں
میں یہ کیا گنگنائے پھرتا ہوں