خوشی ہے اپنی نہ کوئی ملال ہے اپنا

خوشی ہے اپنی نہ کوئی ملال ہے اپنا
وہ بے دلی ہے کہ جینا محال ہے اپنا


نہ وہ وصال کے قصے نہ ہجر کا رونا
بڑا عجیب سا کچھ دن سے حال ہے اپنا


نگاہ شوق کی اس کو ابھی کہاں پروا
ابھی وہ شخص اسیر جمال ہے اپنا


مری طرح بھی کوئی ضبط غم سے کام نہ لے
کہ اپنے آپ سے پوشیدہ حال ہے اپنا


ہم ایسے صاحب فن اور یہ شہر نا پرساں
اگر ہیں زندہ تو یہ بھی کمال ہے اپنا


جو وہ نہیں نہ سہی یاد ہی سہی اس کی
کوئی تو ہے جسے خاورؔ خیال ہے اپنا