خودی کے نام پہ اک جشن بے خودی کر لو
خودی کے نام پہ اک جشن بے خودی کر لو
اندھیری رات میں کچھ اور روشنی کر لو
یہ دشمنی تو مرے احترام میں گم ہے
مرے رقیب کوئی مجھ سے دوستی کر لو
کہاں تلک یہ بہاروں کی سرمدی دولت
بہت تمام ہوئی اب تو زندگی کر لو
یہ شور بڑھتا رہا گر تو بے قصور ہوں میں
تجھے خبر تو ملے کوئی خامشی کر لو
میں اپنے سارے ہی عیبوں سے آپ واقف ہوں
مرے خیال پہ تم کوئی بھی ہنسی کر لو
میں ہوتے ہوتے کہاں دار تک چلی آئی
کسی نے مجھ سے کہا تھا کہ عاشقی کر لو