خود ترک مدعا پر مجبور ہو گیا ہوں
خود ترک مدعا پر مجبور ہو گیا ہوں
تقدیر کے لکھے سے معذور ہو گیا ہوں
اپنی خودی کی دھن میں منصور ہو گیا ہوں
خود بن گیا ہوں جلوہ خود طور ہو گیا ہوں
ان کو بھلا رہا ہوں وہ یاد آ رہے ہیں
کس درجہ دل کے ہاتھوں مجبور ہو گیا ہوں
سب مٹ گئیں امیدیں سب پس گئیں امنگیں
دل کی شکستگی سے خود چور ہو گیا ہوں
پچھتا رہا ہوں ان کو فرقت میں یاد کر کے
وہ پاس آ گئے ہیں میں دور ہو گیا ہوں
مایوس ہو چکا ہوں امید کی جھلک سے
میں جبر کرتے کرتے مجبور ہو گیا ہوں
طالبؔ شکست دل کی اک آخری صدا پر
دنیا سمجھ رہی ہے منصور ہو گیا ہوں