خود کلامی سے پوچھا نہیں
سرمئی بادلوں کو اڑا لے گئی
رس بھری بارشیں کھا گئی
اب افق پر ہیں زہراب نیلاہٹیں
کاسنی بیل دیوار پر
سوئی ہی رہ گئی
نرگسی پھول تھے
جاگتے رہ گئے
چمپئی رنگتوں میں
عجب زردیاں گھل گئیں
کھیل رنگوں کا ہے
اوٹ کاغذ کی ہے
ہاتھ کی بے ہنر لرزشیں
رنگ کب چن سکیں
سوچتے سوچتے آنکھ ساکت ہوئی
کون سے رنگ میں
کون سا رنگ ہے گھل گیا
آتشیں ہے دہک
یا گلابی مہک
دیکھتی بھی نہیں
سونگھتی بھی نہیں
چھو کے بھی تو یہاں سے گزرتی نہیں
کون سی حس جگہوں
کہ جاگے ہوا