خزاں سے کون سی شے چھین لی بہاروں نے

خزاں سے کون سی شے چھین لی بہاروں نے
گلوں کو آنکھ دکھائی چمن میں خاروں نے


چھپا چھپا کے رکھا تھا جسے بہاروں نے
اگل دیا ہے وہی خون لالہ زاروں نے


قدم قدم پہ ہزاروں فریب ہیں ساقی
ارادے نیک تو باندھے ہیں بادہ خواروں نے


اسی مقام پہ پہنچے ہیں تیرے دیوانے
جہاں سے آنکھ چرائی تھی ہوشیاروں نے


مرے جمال کا ہر آئنہ ابھر آیا
یہ ساز کون سے چھیڑے ہیں آبشاروں نے


قدم قدم پہ تجلی نظر نظر جلوہ
کہاں بلایا ہے موسیٰ کو کوہساروں نے


شب فراق امیدوں کی لو بھی کانپ اٹھی
کچھ ایسے گیت بھی گائے ہیں چاند تاروں نے


امید و بیم کے آئینے متصل رکھ کر
حیات نو مجھے بخشی ترے سہاروں نے


یہ اتفاق ہے ان کو وفا نہ راس آئی
بہایا خون جگر تیرے جاں نثاروں نے


دعا ہے پھر بھی سلامت رہے یہ مے خانہ
عوض میں مے کے پیا خون بادہ خواروں نے


سکوں کی بھیک تو مانگی نہ تھی کبھی میں نے


کرم کیا ہے کہاں میرے غم گساروں نے


چبھو دئے ہیں دلوں میں جو خار غم تم نے
انہیں سے زخم کریدے وفا شعاروں نے


کہاں کا ذوق نظر خود نظر ہے گم فائقؔ
چھپا لیا ہے مجھے یوں ترے نظاروں نے