ہر قدم منزل بے نشاں کی طرف

ہر قدم منزل بے نشاں کی طرف
یعنی اک لمحۂ امتحاں کی طرف


گل نہیں میں اتارو مجھے چاک سے
میں چلا کوئے شیشہ گراں کی طرف


ہم کو احساس غربت ہوا کچھ سوا
جب اٹھائی نظر آسماں کی طرف


اپنی بے چارگی بے بسی کی خبر
ہم نے بھیجی تو ہے لا مکاں کی طرف


یار ہستی اٹھائے کوئی اور اب
ہم چلے قریۂ جاوداں کی طرف


ٹوٹنا یہ ستاروں کا سیدؔ میاں
ہے اشارہ مری داستاں کی طرف