خیال وصل
خیال وصل میں
میں نے
جو سارے لفظ لکھے ہیں
سبھی ویران شاموں میں
انہی گمنام راہوں میں
وہ شمع بن کے چمکے ہیں
کہ جیسے تم سے ملتے ہیں
وصال یار کی مانند
کڑکتی دھوپ میں بھی جب
تنہا سایہ ہوتا ہے
یہ دل پھر سے مچلتا ہے
ہر اک لفظ بول اٹھتا ہے
کسی شہر تمنا میں
محبت کی مشعل جیسے
مچلتی اور بلکتی ہے
ہر اک لفظ بول اٹھتا ہے
خیال وصل میں پنہاں