خستہ شکستہ جسم میں دھڑکن لئے ہوئے

خستہ شکستہ جسم میں دھڑکن لئے ہوئے
پھرتا ہوں اپنی روح کی کترن لئے ہوئے


امید ہارے رات میں مزدور سو گئے
جاگے ضرورتوں کی وہ الجھن لئے ہوئے


گلشن تلک میں زہر تعصب کا گھل گیا
کل پھول بھی ملا تھا مجھے گن لئے ہوئے


اترا جو میرے دل سے نظر سے اتر گیا
ملتا ہے مجھ سے اب بھی وہ اترن لئے ہوئے


آئی ہے رقص کرتی ہوا میرے دوار پر
ساون کے گیت گھنگھرو کی چھن چھن لئے ہوئے