نبی کریم ﷺ کھانا اکٹھے ہوکر بسم اللہ پڑھ کر کھاتے تھے

’’حضرت عائشہ صدیقہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اپنے چھ ساتھیوں کے ساتھ مل کر کھانا کھا رہے تھے کہ ایک دیہاتی آیا تو اس نے دولقموں میں کھانا ختم کردیا۔رسول اللہﷺ نے فرمایا:اگر یہ بسم اللہ پڑھ کر کھاتا تو یہ کھانا تم سب کو کفایت کر جاتا۔‘‘

حضرت حذیفہ ؓ فرماتے ہیں: جب ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کھانے میں شریک ہوتے تو رسول اللہ ﷺ سے پہلے شروع نہیں کرتے تھے۔ایک مرتبہ ہم رسول اللہﷺ کےساتھ کھانے میں شریک تھے کہ ایک بچی اس طرح دوڑتی ہوئی آئی گویا اسے پیچھےسے دھکیلا جارہا ہو ۔اس نے کھانے سے کچھ لینا چاہا تو رسول اللہ ﷺ نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا،اس کے بعد ایک دیہاتی آیا اس کی بھی یہی کیفیت تھی جیسےکسی نے اس کو دھکا دیا ہو۔اس نے بھی کھانے میں ہاتھ ڈالنا چاہا  تو اللہ کے رسول ﷺ اس کا ہاتھ پکڑ لیا،پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:شیطان اس کھانے کو پانے کےلیے حلال کرلیتا پر اللہ کا نام نہ لیا جائے۔شیطان اس بچی کو لے کر آیا اپنے لیے کھانا حلال کرنے کے لیےمگر میں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔پھر اس دیہاتی کو لے کر آیا تاکہ کھانااپنے لیے حلال کرلےمیں نے اس کا ہاتھ بھی پکڑ لیا۔پھر رسول اللہﷺ نے قسم اٹھا کر کہا:یقیناَشیطان کا ہاتھ ان دونو ں (بچی اور دیہاتی)کے ہاتھوں  کے سامنے میرے ہاتھ میں ہےاس کے بعدرسول اللہﷺ نے اللہ کا نام لیا اور کھانا کھایا۔

تشریح:

حضرت عائشہ ؓ کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ چھ ساتھیوں کے ساتھ مل کر اکٹھے کھانا کھا رہے تھےتو ایک دیہاتی آیا ،وہ بھی کھانے میں سرور کائنات ﷺکے ساتھ شریک ہوااور دو ہی لقموں میں سارا کھانا کھا گیاجیسا کہ وہ بھوکا تھا۔سرورِعالم ﷺ  نے فرمایا:اگر یہ ’’بسم اللہ‘‘پڑھتا تو سب کو کفایت کر جاتا، کیونکہ اس نے ’’بسم اللہ‘‘ نہیں پڑھی اس لیے سارا کھانا دو ہی نوالوں میں کھا گیا اور کھانا کم ہوگیا۔

یہ روایت اس بات پر دلالت کرتی ہےکہ کھانا اکٹھے مل کر کھانا چاہیے جیسے رسول اللہﷺ کھا رہے تھے۔

دوسری بات یہ ہے کہ جب انسان ’’بسم اللہ‘‘ نہیں پڑھتا تو شیطان کھانے میں اس کا شریک ہو جاتا ہے اور برکت ختم ہو جاتی ہےتو وہ کھانا جس کو انسان کافی خیال کرتا ہےاس میں برکت نہیں رہتی اور وہ ناکافی ہوجاتا ہے۔

حضرت حذیفہؓ کی حدیث میں ہے کہ ایک دن وہ رسول اللہ کے ساتھ تھے،آپ ﷺ کو کھانا پیش کیاگیا۔جب انہوں نے شروع کرنے کا ارادہ کیا تو ایک چھوٹی بچی دوڑتی ہوئی آئی تو اس نے ’’بسم اللہ‘‘ پڑھے بغیر کھانا تناول کرنا چاہا،امام الانبیاﷺ نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا،پھر اسی طرح ایک دیہاتی آیا، اس نے بھی  ’’بسم اللہ‘‘ پڑھے بغیر کھانا چاہا ،رسول اکرم ﷺ نے فرمایاکہ شیطان اس بچی اور دیہاتی کے ساتھ اپنے لیے کھانا حلال کرنے کے لیے آیا تھا کہ یہ بغیر

 ’’بسم اللہ‘‘کے شروع کریں اور کھانا اس کے لیے حلال ہو جائے۔

ان دونوں کو پتا نہیں تھا اس لیے ان کا مواخذہ نہیں کیا گیا کیونکہ یہ توبچی ہے اور یہ بندہ دیہاتی اور جاہل ہے لہذا ان کی باز پرس نہیں ہوتی،پھر رسول معظم ﷺ نے قسم اٹھا کر کہا کہ شیطان کا ہاتھ ان دونوں کے ہاتھ کے ساتھ میرے ہاتھ میں ہے۔

حدیث پاک کے فوائد:

۱۔ صحابہ رسول اللہ ﷺ کا حترام اور ادب کیا کرتے تھے۔

۲۔ جب کو ئی بڑا کھانے میں شریک ہوتو چھوٹوں کے پہلے شروع نہیں کرنا چاہیے،کیونکہ بڑے سے پہلے شروع کرنا مناسب نہیں۔

۳۔شیطان انسان کو نامناسب کام پر ابھارتاہے جیسا کہ قرآن مجید میں بھی ہے:

’’شیطان تمھیں فقر کا ڈراوا دیتا ہےاور تمھیں شرمناک بخل کا حکم دیتا ہے‘‘

دوسرے مقام پر فرمایا: اے لوگو جو ایمان لائے ہو! شیطان کے قدموں کے پیچھے مت چلواور شیطان کے قدموں کے پیچھے چلے تو وہ تو بے حیائی اور برائی کا حکم دیتا ہے۔

۴۔ جب انسان آئے اور لوگ کھانا کھا رہے ہوں تو وہ بسم اللہ ضرور پڑھے اور یہ نہ سوچے کہ پہلوں نے پڑھ لے ہوگی۔

۵۔شیطان کا بھی ہاتھ ہوتا ہے کیونکہ رسول اکرم ﷺ نے اس کے ہاتھ کو روکا۔