ہمارے پیارے نبی ﷺ نے فرمایا جب کسی کو دعوت دی جائے تو اس کو قبول کرے

حضرت ابوہریرہ ؓ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

’’جب کسی کو دعوت دی جائےتو اس کو قبول کرے۔اگر اس نے روزہ رکھا ہے تو پھر دعا کرے۔روزہ نہیں رکھا تو پھر دعوت میں شریک ہوکر کھانا کھائے۔

تشریح:

جب انسان کو کھانے کی دعوت دی جائے تو اس کا صرف حاضر ہونا ہی کافی نہیں بلکہ اس کو کھانا بھی تناول کرنا پڑے گاکیونکہ جس نے دعوت دی ہےاس نے کھانا کھانے کے لیے پکایا ہے،دیکھنے کے لیے نہیں،اور پھر مال بھی خرچ کیاہے،پھر دعوت بھی دی ہے،لہذا کھانا ضروری ہے۔

ہم کہیں کہ اگر کھانا چھوڑ بھی دیں یعنی نہ کھائیں اور صرف حاضر ہو جائیں تو اس میں کوئی حرج نہیں تو میرے بھائی اس میں بہت بڑا حرج ہےکیونکہ اس نے کھانا پکوایا ہے،اس پر اس کا مال بھی صرف ہوا ہےاگر نہ کھایا جائے تو مال بھی ضیاع ہے اور اللہ تعالیٰ کی بھی ناقدری ،اس کےساتھ جو دعوت دینے والا ہے اسکے دل میں کھٹکا ہوگا کہ کس وجہ سے انہوں نے میرا کھانا نہیں کھایا؟

اس لیے جب کوئی دعوت دینے والا دعوت دے تو سنت یہ ہے کہ اس کی دعوت کو قبول کیا جائے،اگر ولیمہ کی دعوت مل رہی ہے تو اس کو قبول کرنا واجب ہے،کیونکہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

ترجمہ:’’جس نے دعوت قبول نہ کی اس نے اللہ اور رسول کی نافرمانی کی۔‘‘

اس حدیث میں ولیمہ کی دعوت مرادہے۔ولیمہ کے علاوہ دوسری دعوتوں میں اختیار ہے۔مثال کے طور پر ایک انسان سفر سے واپس آیا اور اپنے دوستوں کی دعوت کی اور اس نے تجھے بھی دعوت دی تو اگر جی چاہے تو قبول کر لے،اگر دل نہیں کرتا تو نہ کر ،مگر افضل یہ ہے کہ تو دعوت کو قبول کرے،جمہور ِعلما ءکرام کا یہی موقف ہے۔

بعض علما ءکرام کہتے ہیں کہ دعوت ولیمہ ہو یا غیر ولیمہ قبول کرنا واجب ہےاور ضروری ہے،ہاں اگر کوئی شرعی عذر ہو تو پھر قبول نہ کرنے میں کوئی حرج نہیں۔اگر دعوت کو قبول کرتے ہوئے حا ضری کا موقع مل گیا ہے اور روزہ نہیں تو پھر کھانا تناول کرنا چاہیے،روزہ ہو تو پھر دعوت دینے والے کے لیے اچھے اچھے الفاظ استعمال کرتے ہوئے دعائیں دینی چاہییں اور اسے روزے کے متعلق مطلع کرناچاہیےتاکہ اس کے دل میں کوئی وسوسہ پیدا نہ ہو سکے۔

روزہ فرضی نہیں تو اس کو توڑ بھی سکتا ہےتاکہ صاحب طعام کے خدشات دور ہوں،فرض ہو تو اس کو توڑنا صحیح نہیں بلکہ منع ہے۔

مسائل:

۱۔ روزہ نہ ہونے کی صورت میں دعوت میں حاضر ہوکر کھانا چاہیے۔

۲۔روزہ فرضی ہو تو اس کو توڑنا جا ئز نہیں۔

۳۔روزہ نفلی ہو تو پھر اختیار ہے،انسان چاہے توڑ سکتا ہےاور نہیں بھی توڑ سکتا ۔نہ توڑنے کی صورت میں داعی (دعوت دینے والا)کو اپنے روزے سے آگاہ کردے،جوبھی مناسب سمجھے حالات کے پیش نظر اس کو اختیار کرے،مگر روزہ کو نہ توڑنا زیادہ بہتر ہے۔

اگر کوئی کارڈکے ذریعے سے دعوت دیتا ہےتو اسے قبول کرنا واجب نہیں کیونکہ اکثر کارڈ صرف روایتی طور پر ہی بھیجے جاتے ہیں،ان کا منشا یہ نہیں ہوتاکہ مدعو(جس کو دعوت دی گئی ہو)لازمی حاضر ہو۔

مگر جب وہ حقیقی دعوت دے اور وہ تمہاری شرکت کا متمنی بھی ہوتو پھر قبول کرنا واجب ہے۔کیونکہ وہ تمھارا قریبی دوست یا اقارب سے ہےتو لازمی امر ہےکہ وہ تمہاری شرکت کا متمنی ہے،یہ الگ بات ہے کہ آج کل اکثر دوست اور رشتے دار بھی روایتی دعوت ہی دیتے ہیں۔

حدیث پاک کے فوائد:

۱۔ جب انسان کو کھانے کی دعوت دی جائے اور اس کا روزہ بھی نہیں تو اس کو قبول کرنا چاہیے۔

۲۔مدعوّ (جس کو دعوت دی گئی ہو)اگر روزہ دار ہے اور فرضی روزہ ہے تو روزہ توڑنا صحیح نہیں۔